یہ ویب سائٹ زیر تکمیل ہے

باب نمبر چونتیس

باب نمبر ۳۴ : معرکہ یرموک کی تیاری

شام ایک ایسے میدان جنگ کی صورت اختیار کر چکا تھا جس میں متحارب قوتیں مخالف سمت سے داخل ہوئی تھیں ۔ دونوں داخلوں کی پشت کا علاقہ ایسا تھا جو اس سمت سے داخل ہونے والے فریق کے لئے گھر کی مانند تھا ۔ شام اور فلسطین کے مغرب میں وسیع و عریض بحیرہ روم تھا جو اس دور میں "رومی جھیل" بھی کہلاتا تھا ۔ جبکہ مشرق اور جنوب میں صحرا تھا جسکی وسعتوں میں عرب بےتاج بادشاہ تھے ۔ رومی سمندر میں اپنے بحری بیڑوں کے ساتھ آزادی سے گھوما کرتے جبکہ عرب ریگستان میں اپنے اونٹوں کے کاروان کے ساتھ اسی آزادی کے ساتھ حرکت کیا کرتے ۔ عرب سمندر میں جانے کی جرات نہیں کر سکتے تھے اور نہ ہی رومی ریت کے سمندر میں کسی مہم جوئی کی سکت رکھتے تھے ۔ جبکہ درمیان کے میدان میں دونوں فریق اپنے داو پیچ آزما سکتے تھے ۔

لھذا اس میدان مین لڑنے والی دونوں فوجوں کے لئے بہترین جگہ اس کے اپنے علاقے کی سرحد تھی جہاں وہ اپنے وسیع و عریض "سمندر" کو اپنی پشت پر رکھ کر لڑ سکتی تھی اور نہ صرف شکست کی صورت میں پسپائی اختیار کر کے خود کو محفوظ بنا سکتی تھی بلکہ فتح کی صورت میں مخالف کا پیچھا کر کے اس کو زبردست نقصان پہنچا سکتی تھی ۔ لیکن اس صورتحال کا فائدہ مسلمانوں کو رومیوں سے زیادہ تھا کیونکہ اس محاذ سے پسپائی ان کے لئے کسی نقصان یا شرمندگی کا باعث نہیں بن سکتی تھی ۔ رومیوں کے لئے البتہ اس کا دفاع اشد ضروری تھا کیونکہ یہ ان کی سرزمین تھی اور اسکا دفاع انکوہر صورت میں کرنا تھا ۔ یہ فائدہ جو مسلمانوں کو ایک بہتر پوزیشن میں ہونے کی وجہ سے تھا اچھی طرح سے ہرقل کے ذہن میں تھا اور اس جنگ کی سب سےبڑی مہم کی منصوبہ بندی میں اسنے خاص طور پر اس بات کو مد نظررکھا تھا ۔

ہرقل نے ۶۱۰ عیسوی میں اسوقت تخت سنبھالا تھا جب مشرقی سلطنت روما کے معاملات انتہائی تنزلی کا شکار تھے اور سلطنت قسطنطنیہ، یونان اور افریقہ کے کچھ علاقوں پر مشتمل تھی ۔ابتدا میں اس کو چند کڑوی گولیاں نگلنی پڑیں لیکن پھر تقدیر نے یاوری کی اور دو عشروں کے اندر اس نے سلطنت کو اپنی پرانی عظیم الشان حالت میں بحال کر دیا ۔ پہلے اسنے شمال کے وحشیوں کو شکست دی، پھر ترکوں کو زیر کیا اور اسکے بعد خسرو کی انتہائی مہذب ایرانی سلطنت کو پسپا کیا ۔ یہ سب اسنے نا صرف اپنی سخت جنگی قوت سے کیا تھا بلکہ اسمیں اعلی معیار کی منصوبہ بندی اور عمدہ نظم و ضبط بھی کارفرما تھا۔ حربی صلاحیتیں ہرقل کے رگ و پے میں بسی ہوئی تھیں اور یہ اسکی غیر معمولی انتظامی صلاحیت تھی جسکی بناء پر رومی اس قابل ہوئے تھے کہ وہ نا صرف ایک بڑی فوج تشکیل دے سکیں بلکہ ایک درجن سے زائد اقوام پر مشتمل اس عظیم سامراجی فوج کو میدان میں منظم کر سکیں ۔

ہرقل کو ایک بار پھر کڑوی گولیاں نگلنا پڑیں اور زیادہ تلخی اس حقیقت میں تھی کہ ان کو ایک ایسی قوم نے ناکوں چنے چبوا دیئے تھے جس کو وہ انتہائی حقارت سے دیکھتے تھے اور انکو پسماندہ اور کمتر سمجھ کر انکی طرف سے آنے والے کسی خطرے کے امکان کو مسترد کر چکے تھے ۔ بے عیب جنگی حکمت عملی کے باوجود انکو مسلمانوں کے خلاف شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا ۔ رومی فوج کا اجنادین کے مقام پر پہلا اجتماع جس نے مسلمانوں کے عقب سے حملہ آور ہونا تھا اجنادین کے معرکے میں خالد بن ولید کے ہاتھوں بری طرح تباہ ہوا تھا ۔ ہرقل چاہتا تھا کہ دمشق کا مضبوط دفاع کر کے مسلمانوں کی کامیابی کو محدود کیا جائے لیکن محصور شدہ چھاونی کو بچانے کی ہر کوشش بے نتیجہ ثابت ہوئی تھی ۔ اسکا اگلا جارحانہ اقدام بھی ناکام ہو گیا تھا جسکے مطابق رومی فوج نے بیسان کے مقام پر جمع ہو کر مسلمانوں کے عقب سے حملہ آور ہونا تھا ۔ اس فوج کو شرحبیل نے بری طرح تتر بتر کر دیا تھا ۔لھذا نہ صرف اسکی دمشق کو واپس حاصل کرنے کی کوشش ناکام ہوئی تھی بلکہ اسکے علاوہ بھی اسکا دفاع متعدد جگہ پر ریت کی دیوار ثابت ہوا تھا ۔ جبکہ دوسری طرف مسلمانوں کے لشکر ایک کے بعد دوسری فتح حاصل کرتے ہوئے فلسطین اور حمس تک کے تمام علاقے فتح کر چکے تھے ۔ 

ہرقل نے بھرپور مزاحمت کا فیصلہ کر لیا تھا ۔ وہ ایک ایسی فوج تیار کرنا چاہتا تھا جو اس سے پہلے شام کی تاریخ میں کبھی میدان پر نہ اتاری گئی ہو اوراس فوج کے ذریعے وہ مسلمانوں کو اسطرح بےبس کرنا چاہتا تھا کہ کوئی مسلمان اس کی گرفت سے بچ نہ سکے ۔ وہ اپنی شکست کو ایک عظیم الشان فتح میں بدلنا چاہتا تھا ۔ 

۶۳۵ عیسوی کے اواخر میں جب حمس کا محاصرہ جاری تھا، ہرقل نے انتہائی قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا ۔ سلطنت کے ہر کونے سے فوجیں جمع کی گئیں جس میں سلطنت کے شہزادے اور کلیسا کے معززین بھی شامل تھے ۔ مئی ۶۳۶عیسوی کے آخر تک ڈیڈھ لاکھ کی فوج کو کیل کانٹے سے لیس کر کے شام کے شمالی حصوں اور انتاکیہ میں جمع کیا جا چکا تھا ۔ یہ لشکر جرار روسی، سلاو، فرانسیسی، اطالوی، یونانی، جارجین، آرمینین اور عیسائی عرب اقوام پر مشتمل تھا ۔ عیسائی عقیدے پر ایمان رکھنے والی کوئی قوم اس نئی فوج کو جنگجو بھیجنے سے پیچھے نہیں رہی تھی جو حملہ آور کے خلاف صلیبی جنگ کے جزبے سے سرشار تھی ۔اس فوج کو ۳۰ ہزار کے پانچ حصوں میں منظم کیا گیا ۔ ان دستوں کے سربراہان آرمینوی بادشاہ وہان، روسی شہزادہ قناطیر، دیرجان، گریگوری اور عربی عیسائیوں کا بادشاہ جبلہ ابن الایہم تھے۔ وہان کی کمان میں خالصتا آرمینوی فوج تھی، جبلہ عرب عیسائیوں کا سربراہ تھا اور قناطیر روسی اور سلاو افواج کا کمانڈر تھا۔ باقی تمام دستے جو یورپی تھے ، گریگوری اوردیرجان کی قیادت میں تھے ۔ وہان کو اس شاندار لشکر کا سپاہ سالار مقرر کیا گیا ۔

اسوقت مسلمان چار جگہوں پر موجود تھے ۔ عمروبن العاص فلسطین میں، شرحبیل اردن میں، یزید قیصریہ میں اور خالد بن ولید شمال کی جانب حمس کے مقام پر موجود تھا۔ مسلمان شدید خطرے کی زد میں تھے اور عین ممکن تھا کہ مسلمان کے ہر دستے کونشانہ بنا کر کامیابی کے ساتھ ختم کر دیا جاتا۔ ہرقل نے اس صورتحال کو خاص طور پر ذہن میں رکھ کر منصوبہ بندی کی تھی۔ 

قیصریہ کو سمندر کی جانب سےکمک فراہم کی گئی تھی اور اب وہاں ۴۰ ہزار رومی جنگجو موجود تھے۔ ان کا کام یزید اور اسکی محاصر فوج کو الجھاناتھا تاکہ وہ اپنے ساتھیوں کی مدد کو نہ پہہنچ سکیں۔ باقی فوج نے اس منصوبے پر عمل کرناتھا:

۱۔ قناطیر نے ساحلی راستے سے بیروت پہنچنا تھا اور پھرمغرب کی جانب سے پیش قدمی کرنا تھی تاکہ ابو عبیدہ کودمشق تک محدود کیا جا سکے ۔ 

۲۔ جبلہ نے حما کے راستے سے براہ راست حمس پر حملہ آور ہونا تھا اور مسلمانوں کو سامنے سے الجھا کر رکھنا تھا۔عرب عیسائی اس فوج کا ہراول دستہ تھے۔ ہرقل نے خاص طور پر عرب عیسائیوں کو عرب مسلمانوں کے سامنے بھیجا تھا، اس کا کہنا تھا،"لوہالوہے کو کاٹتا ہے"۔

۳۔ دیرجان نے ساحل سمندر کے ساتھ ساتھ سفر کرنا تھا اور مغرب کی جانب سے مسلمانوں کےبائیں پہلو میں اسوقت حملہ آور ہونا تھاجب وہ جبلہ کےدستے سے نبردآزما ہوں۔

۴۔ گریگوری نے حمس کی جانب شمال مشرق کی طرف سے پیش قدمی کرنی تھی اوردائیں پہلو سے مسلمانوں پر عین اس وقت حملہ کرنا تھا جب دیرجان کی فوج ان سے ٹکرا چکی ہو۔

۵۔وہان کی فوج نے عرب عیسائیوں کے پیچھے اضافی دستوں کا کام کرنا تھا تاکہ دوران جنگ ضرورت پڑنے پر تازہ دم دستے فراہم کئے جا سکیں۔ 

اس منصوبے کا مقصد مسلمانوں کو ہر طرف سے گھیر کر ایک ایسی فوج کے نرغے میں لاناتھا جو ان سے دس گنا بڑی ہواور اسکے بعد خالد حالات کے رحم و کرم پر ہوتا۔ اس فوج کو تباہ کر کے رومیوں نے جنوب کی طرف مسلمانوں کے دوسرے دستوں سے ٹکراناتھا اور باری باری ان کو خونریز حملوں کے نتیجہ میں مکمل طور پر ختم کرنا تھا۔ 

سلطنت کے طول و عرض میں رومی فوج کی کامیابی کے لئے خصوصی دعاوں کا اہتمام کیا گیا۔جرنیلوں اور پادریوں نے اپنی فوج کا حوصلہ بڑھایا اور اپنے عقیدے، اپنے وطن اور اس میں رہنے والے لوگوں کی خاطر دشمن کے خلاف ڈٹ جانے کی تاکید کی۔ اس بھرپور تیاری اور بےعیب جنگی حکمت عملی کےساتھ جون ۶۳۶ عیسوی میں سلطنت روما کے اس لشکر جرار نے شمالی علاقوں اور انتاکیہ سے پیش قدمی شروع کی۔ 

جبلہ کی فوج کے ہراول دستے حمس پہنچے لیکن وہاں مسلمانوں کا نام و نشان تک نہ تھا۔ قناطیر کی فوج دمشق پر مغرب سے حملہ آور ہوئی لیکن یہ دیکھ کر ان کے ارمانوں پر اوس پڑ گئی کہ وہاں ایک مسلمان بھی موجود نہیں تھا۔ پنچھی اڑ چکے تھے۔

مسلمانوں کو شیذار کے مقام پر رومی قیدیوں کے ذریعے ہرقل کی جنگی تیاریوں کے بارے میں اطلاعات مل چکی تھیں۔ مسلمانوں نے مختصر سے عرصے میں جاسوسی کا بہترین نظام وضع کیا تھا اور دشمن فوجوں کی کسی بھی بڑی پیش قدمی کی اطلاع ان کو پیشگی موصول ہو جاتی تھی۔ جوں جوں مسلمانوں کے پاس اطلاعات پہنچتی رہیں صورتحال واضح ہوتی گئی۔ ابھی رومی فوج نے پیش قدمی شروع بھی نہ کی تھی کہ مسلمانوں کواس کی سمت اور راستوں کے بارے میں اطلاع مل گئی۔ قیصریہ کو فراہم کی جانے والی کمک اور اس میں موجود فوجوں کی تعداد مسلمان پہلے ہی جان چکے تھے۔ 

رومی کیمپ سے ملنے والی اطلاعات سن کر مسلمان ہکا بکا رہ گئے تھے۔ہر آنے والی اطلاع مسلمانوں کی بے چینی میں اضافہ کر رہی تھی۔ ہرقل کا منصوبہ بلکل واضح تھا اور خالد جلد ہی اس نتیجہ پر پہنچ گیا کہ حمس اور شیذار میں موجود مسلمان فوجیں شدید خطرے کی زد میں ہیں۔بہترین حکمت عملی یہی تھی کہ شمالی ووسطی شام اور فلسطین کے علاقوں میں موجود تمام مسلمان فوجوں کو نکال کر صحرا کے قریب اکٹھا کیا جائے تاکہ طوفان کی طرح آگے بڑھتے رومی خطرے کے سامنے بھرپور مزاحمت کو ممکن بنایا جا سکے۔ خالد نے سپاہ سالار ابو عبیدہ ابن جراح کے سامنے اپنی تجویز رکھی جسے قبول کر لیا گیا۔ تمام فوجوں کو انخلاء کے احکامات جاری کئے گئے اور انہیں جبیہ کے مقام پر جمع ہونے کی ہدایت کی گئی۔لھذا اس سے پہلے کہ رومی دمشق پہنچتے، خالد اور ابو عبیدہ جبیہ میں تھے جبکہ شرحبیل، یزید اور عمر بن العاص جبیہ کے قریب پہنچ چکے تھے۔ مسلمان فوج کے کمانڈربروقت اور موثرفیصلوں کی بدولت اپنی فوج کو ایک یقینی تباہی سے نکال لائے تھے۔

ابو عبیدہ ابن جراح نے حمس کے رہنے والوں سے بہترین سلوک کیا جسکی وجہ سے اس عظیم جرنیل کا نام تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔حمس کی فتح کے موقع پر مسلمانوں نے مقامی آبادی سے جزیہ اکٹھا کیا جس کے بعد انکی حفاظت کی ذمہ داری مسلمانوں نے اٹھائی لیکن مسلمان اب شہر

Read more...

باب نمبر تین ۔ غزوہ احد

باب نمبر تین ۔ غزوہ احد

مکہ میں جشن کا سا سماں تھا۔ پچھلے کئی دنوں سے خطرات میں گھرا قافلہ مکہ پہنچ چکا تھا۔ مدینہ کے قریب واقعہ ساحلی علاقوں سے ہو کر آنے والا یہ قافلہ مسلمانوں کے ہاتھوں میں جا چکا تھا لیکن ابو سفیان کی قیادت اور اسکے بروقت فیصلوں کی بدولت قافلہ حفاظت سے مکہ پہنچ گیا۔ قافلہ 1000 اونٹوں پر مشتمل تھا اور اسکی مالیت 50 ہزار دینار تھی۔ اس قافلے نے ہر دینار پر ایک دینار منافع کمایا تھا اور اسمیں مکہ کے تقریباً ہر خاندان کا حصہ تھا۔عرب میں اسوقت بہار کا موسم تھا اور عیسوی کلینڈر کے مطابق تاریخ مارچ 625 تھی۔

قریش مکہ اس قافلے کی واپسی پر مسرور تھے اور تاجر منافع میں اپنا حصہ ملنے کا انتظار کر رہے تھے جبکہ دوسری طرف قریش کا شکست خوردہ لشکر مکہ کی طرف آرہا تھا۔ یہ لشکر ابو سفیان کی طرف سے مدد طلب کرنے کے بعد روانہ کیا گیا تھا۔ ابو سفیان کا کہنا تھا کہ تجارتی قافلے کو مسلمانوں کی جانب سے خطرہ لاحق ہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ لشکر قافلے کی مدد کو پہنچتا ابو سفیان قافلے کو بحفاظت مسلمانوں سے بچا کر نکال لایا تھا۔ لشکر کو ابو سفیان کا پیغام مل چکا تھا کی مکہ لوٹ آؤ خطرہ ٹل گیا ہے لیکن قافلے کا سالار ابو جہل کچھ اور سوچ رہا تھا۔ نبیؐ کی شدید مخالفت میں 15 سال گزارنے کے بعد وہ یہ موقع ہاتھ ہاتھ سے کہاں جانے دیتا تھا۔ اس نے مسلمانوں سے جنگ کا فیصلہ کر لیا تھا۔

اسی جنگ کے نتیجے میں ذلت آمیز شکست کا مزا چکھنے کے بعد یہ لشکر بھاری قدموں سے مکہ کی جانب بڑھ رہا تھا۔ لشکر کا قاصد لشکر سے پہلے شکست کی خبر لے مکہ میں داخل ہوا۔ قاصد اپنا کرتا پھاڑ کر چلّا رہا تھا اور زبان حال سے تباہی کا نوحہ سنا رہا تھا۔ مکہ والے قاصد کے گرد جمع تھے۔ سب اپنے عزیزواقارب کے بارے میں پوچھ رہے تھے جبکہ ابو سفیان اور اسکی بیوی ہندہ حیرت سے بت بنے سب سن رہے تھے۔

ہندہ کا باپ عتبہ، اسکا چچا شیبہ، اسکا بھائی ولید اور اسکا بیٹا حنظلہ سب علی اور حمزہ کی تلوار سے مرے تھے۔ اسکی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ اسنے قسم کھائی کہ جبتک وہ اپنے پیاروں کے خون کا بدلہ نہ لے لے، اسوقت تک وہ چین سے نہیں بیٹھےگی۔

Read more...

باب نمبردو ۔ صفحہ نمبر چار

اس باب کے آغاز میں جس شخص کا ذکر ہوا ہے وہ مکہ سے کچھ فاصلے پر موجود غار حرا میں جاتا جہاں وہ پوری ذہنی یکسوئی سے اس کائنات کے اسرار و رموز پر تفکروتدبر کرتا ۔ ایک دن جب وہ غار میں موجود تھا تو اسے غار میں کسی کی موجودگی کا احساس ہوا ۔ 

"پڑھو" ایک غائبانہ آواز آئی ۔ 

"میں پڑھ نہیں سکتا" اس نےجواب دیا ۔ 

"پڑھو" اسی آواز نے دھرایا ۔ 

"میں پڑھ نہیں سکتا" اس نے پھر جواب دیا ۔ 

"پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا ۔ آدمی کو خون کی پھٹک سے بنایا ۔ پڑھو اور تمھارا رب ہی سب سے بڑاکریم ہے ۔ جس نے سکھایا قلم کے ذریعے سے ۔ سکھایا انسان کو وہ کچھ جووہ نہ جانتا تھا ۔"

(سورۃالعلق،آیات 1 تا 5)

اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ و الہ سلم پر پہلی وحی کا نزول اگست 610 عیسوی میں ہوا ۔ یہ ایک نئی دنیا کا نقطہ آغاز تھا ۔ خالد کی عمر اس وقت 24 برس تھی ۔

Read more...

باب نمبردو ۔ صفحہ نمبر ایک

باب نمبردو : نیا عقیدہ 

ایک شخص مکہ کی گلیوں میں اکثر دکھائی دیتا تھا ۔اسکا تعلق بنو ہاشم سے تھا ۔ اسکی شخصیت جاذب نظر ،قد درمیانہ، کندھےکشادہ و مضبوط اور بال کندھوں تک لمبے تھے ۔ اسکی گہرے رنگ کی آنکھیں متفکر اور اداس دکھائی دیتی تھیں۔ 

عرب معاشرے میں بہت کچھ ایسا تھا جو اسکے لئے باعث تکلیف تھا ۔ ہر طرف موجود زوال، ظلم ، نا انصافی اور قتل و غارت اسکے سامنے تھا ۔ خواتین کے ساتھ ہونے والا سلوک تو جانوروں سے بھی بدتر تھا۔ جب اسے کسی بچی کے زندہ دفن کر دئیے جانے کی خبر ملتی تو اسے سخت صدمہ پہنچتا۔ 

عربوں کے کچھ قبائل میں بچیوں کو قتل کرنے کی سفاکانہ رسم چل نکلی تھی۔ باپ اپنی بچی کو پانچ یا چھ سال کی عمر تک بڑھنے دیتا اور پھر ایک دن اسے بستی سے دور ایک جگہ لے جاتا جہاں اسکی قبر پہلے سے کھودی جا چکی ہوتی۔ اس معصوم کو قتل کرنے کے بعدوہ اسے زمین میں دبا دیتا۔ ان میں کچھ بدبخت ایسے بھی تھے جو بعد میں اپنے اس غیر انسانی فعل کا ذکر فخر کے ساتھ کرتے ۔ 
یہ رسم عرب میں عام نہیں تھی۔ قریش کی تاریخ میں ایسا ایک بھی واقعہ نہیں سنا گیا۔ اس طرح کے واقعات صحرا کے بدو قبائل میں پیش آتے لیکن ایک دل و دماغ رکھنے والے عرب کے لئے اس طرح کا کوئی اکا دکا واقعہ بھی طبیعت کو اداس اور بوجھل کر دینے کے لئے کافی تھا ۔
مکہ کو بت پرستی کا مرکز بنا دیا گیا تھا ۔کعبہ کو اللہ کے نبی ابراہیم ؑ نے اللہ کی عبادت کے لئے تعمیر کیا تھا لیکن اسے لکڑی اور پتھر سے بنائے گئے ناپاک بتوں سے بھر دیا گیا تھا ۔ انکی پرستش کی جاتی اور ان کو راضی کرنے کے لئے نذرونیاز کا انتظام کیاجاتا۔ کعبہ کے اندر اور اردگرد 360 بت موجود تھے جن میں سب سے اہم لات، عزیٰ اور حبل تھے ۔ حبل جو اس نظام کی سب سے نمایاں علامت تھا حجم کے لحاظ سے بھی باقی سب بتوں سے بڑا تھا ۔ اسے سرخ رنگ کے قیمتی عقیق سے تراشا گیا تھا ۔ شام سے درآمد کیا جانے والا یہ بت بغیر سیدھے ہاتھ کے تھا لہٰذا ایک سونے کا ہاتھ تیار کر کے اسےبت کے اندر لگایا گیاتھا ۔

عربوں کا مذہبی عقیدہ مشرکانہ تھا جس میں بتوں کی پرستش کی جاتی لیکن اللہ کے وجود کو بھی مانا جاتا تھا ۔ان کا ماننا تھا کہ اللہ سچا خدا اور خالق ہے جبکہ یہ بت اسکے بیٹے اور بیٹیاں ہیں ۔ وہ اسکو ایک شوریٰ کی طرح دیکھتے تھے جس میں اللہ کی حیثیت مجلس کے صدر جیسی ہو۔ قسم کھاتے وقت کبھی اللہ کا نام استعمال کیا جاتا اور کبھی کسی بت کا۔ بچوں کے نام بھی اسی طرز پر رکھے جاتے مثلاً عبداللہ یعنی اللہ کا بند یا عبدالعزیٰ یعنی عزیٰ کا بندہ۔
یہ کہنا بھی درست نہ ہوگا کہ عرب معاشرہ محض برائی پر مشتمل تھا ۔ عربوں کے کردار میں ایسی چیزیں بھی تھیں جو قابل تحسین تھیں۔ عرب مہمان نواز، باہمت اور عزت نفس رکھنے والے لوگ تھے ۔ وہ اپنی ذاتی اور قبیلے کی عزت کے معاملے میں حساس تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ خاندانی عداوتیں نسل در نسل خون خرابے کا باعث بنتی تھیں ۔ یہ طرز عمل نہ صرف قابل فہم بلکہ ضروری بھی تھا کیونکہ کسی مرکزی حکومت کے بغیر چلنے والے قبائلی نظام میں امن و امان قائم رکھنے کا بظاہر کوئی دوسرا راستہ نہ تھا ۔

عرب معاشرے کے نقائص اسکے مذہبی اور اخلاقی نظام میں تھے جہاں یہ معاشرہ زوال کی انتہا کو پہنچ چکا تھا ۔ یہ زمانہ تاریخ میں زمانہ جاہلیت کے نام سے جانا گیا ۔ ان کے اعمال اور عقائد سب جہالت پر مبنی تھے ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب جاہلیت محض ایک زمانہ ہی نہیں بلکہ ایک طرز زندگی کا روپ دھار چکی تھی ۔
اس باب کے آغاز میں جس شخص کا ذکر ہوا ہے وہ مکہ سے کچھ فاصلے پر موجود غار حرا میں جاتا جہاں وہ پوری ذہنی یکسوئی سے اس کائنات کے اسرار و رموز پر تفکروتدبر کرتا ۔ ایک دن جب وہ غار میں موجود تھا تو اسے غار میں کسی کی موجودگی کا احساس ہوا ۔ 

"پڑھو" ایک غائبانہ آواز آئی ۔ 

"میں پڑھ نہیں سکتا" اس نےجواب دیا ۔ 

"پڑھو" اسی آواز نے دھرایا ۔ 

"میں پڑھ نہیں سکتا" اس نے پھر جواب دیا ۔ 

"پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا ۔ آدمی کو خون کی پھٹک سے بنایا ۔ پڑھو اور تمھارا رب ہی سب سے بڑاکریم ہے ۔ جس نے سکھایا قلم کے ذریعے سے ۔ سکھایا انسان کو وہ کچھ جووہ نہ جانتا تھا ۔"

(سورۃالعلق،آیات 1 تا 5)

اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ و الہ سلم پر پہلی وحی کا نزول اگست 610 عیسوی میں ہوا ۔ یہ ایک نئی دنیا کا نقطہ آغاز تھا ۔ خالد کی عمر اس وقت 24 برس تھی ۔
تین سال تک رسولؐ پر وحی کا نزول ہوتا رہا اور پھر آپؐ نے اللہ کے پیغام کو عام کرنا شروع کیا ۔ آپؐ نے اپنے خاندان سے اس دعوت کا آغاز کیا ۔اکثریت نے آپ ؐ کی دعوت کو رد کر دیا اور مذاق اڑایا ۔ 

ایک دن رسولؐ نےاپنے قریبی عزیزوں کو جمع کیا اور ان کے لئے کھانے کا اہتمام کیا تاکہ ان کو اللہ کا پیغام پہنچایا جا سکے۔ کھانے کاانتظام بطریق احسن ہو ا ۔ کھانے کے بعد آپؐ نے حاضرین کو مخاطب کر کے فرمایا ،"اے عبدالمطلب کے بیٹو! اللہ گواہ ہے کہ عربوں میں سے کبھی اس سے بہتر پیغام لے کر تمھاری طرف نہیں آیا جو میں تمھارے لئے لایا ہوں ۔ اس میں تمھاری اس زندگی کی بہتری بھی ہے اور اسکے بعد آنے والی زندکی کی بھی ۔ مجھے اللہ کی طرف سے حکم دیا گیا ہے کہ تمہیں اسکی طرف بلاؤں ۔کون ہے جو اس کام میں میرا حامی اور مددگار بنےگا ؟"

محفل پر سناٹا چھا گیا ۔ سب ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے ۔ اور پھر ایک کمزور سا کم عمر لڑکا کھڑا ہوا،"میں بنوں گاآپکا مددگار اللہ کے رسول" اسنے اپنی پتلی سی آواز میں کہا ۔ 

ایک قہقہ بلند ہوا ۔ سب مہمان تضحیک آمیز انداز میں ہنسنے لگے اور کچھ دیرکے بعد وہ ایک ایک کر کے باہر نکل گئے۔لیکن لڑکا اس بداخلاقی سے بے پرواہ کھڑا رہا۔ اور اگلے ہی لمحےرسولؐ نے آگے بڑھ کر اسے گلے سے لگا لیا۔ آپؐ نے فرمایا،"ہاں یہی ہے میرا دوست اور مددگار"۔ یہ لڑکارسولؐ کا چچازاد بھائی علی ابن ابوطالب تھا۔13 سال کا یہ لڑکا رسولؐ پر سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں سے تھا۔
رفتہ رفتہ اسلام پھیلنے لگا اور کچھ لوگ جن میں اکثر نوجوان یا بے یارومددگار تھے ایمان لے آئے۔ انکی تعداد کم تھی لیکن جذبہ بلند تھا۔ اسطرح رسولؐ کا دائرہ اثر بڑھنے لگا۔ قریش مکہ کی طرف سے پیدا کی گئی رکاوٹوں اور بداخلاقیوں کے باوجود آپؐ نے گلیوں اور بازاروں میں دین حق کی دعوت جاری رکھی اور برائی کے راستے پر چلنے والوں کو جہنم کی آگ سے ڈراتے رہے۔ آپؐ انکو بتوں کی پرستش چھوڑ کر سچے خدا کی عبادت کی تلقین کرتے رہے۔رسولؐ کی سرگرمیاں بڑھنے کے ساتھ ساتھ قریش کی طرف سے مزاہمت بھی شدیدتر ہوتی گئی۔اس مزاہمت کی قیادت چار افراد کر رہے تھے۔ ابوسفیان(بنوامیہ کا سردار جسکا اپنا نام سخر بن حرب تھا)،الولید(خالد کا باپ)، ابولہب(رسولؐ کاچچا) اور ابوالحکم(جسکا ذکر پہلے ہوچکا)۔
ابو سفیان اور الولید قدرے باعزت اورمہذب لوگ تھے۔ وہ رسولؐ کی مخالفت تو کرتے لیکن گھٹیا اور پرتشدد حرکتوں سے گریز کرتے۔الولید کا پہلا ردعمل ناراضی کے اظہار کا تھا،"نبوت محمد کو دے دی گئی ہے اور میں جو قریش کا سب سے معزز آدمی ہوں ، مجھے کچھ نہیں ملا؟ اور بنو ثقیف کا سردار ابو مسعود بھی تو تھا، ہم دونوں سے بڑھ کر تو اس علاقے میں کوئی نہیں ہے۔" یہ بزرگ آدمی اپنی ہی ایک دنیا میں مگن رہتا تھا جہاں خاندانی رتبہ اور جاہ و جلال ہی سب کچھ تھا۔حالانکہ اس لحاظ سے بھی اسکا رسولؐ پر کیا جانے والا اعتراض غیر منصفانہ تھا کیونکہ اسکا اپنا نسب بھی چھٹی پشت پر جا کر رسولؐ سے جا ملتا تھا لہٰذا رسولؐ بھی اخاندنی لحاظ سے اتنے ہی معزز تھےبلکہ رسولؐ کا خاندان اس سے بھی زیادہ معزز تھا کیونکہ آپؐ کے دادا عبدالمطلب قریش مکہ کے سب سے بڑے سردارتھے۔

مورخ ابن ہشام کے مطابق قرآن کی مندرجہ ذیل آیات الولیدکے اس اعتراض پر نازل کی گئیں:

"اور بولے کیوں نہ اتارا گیا یہ قرآن دو شہروں کے کسی بڑےآدمی پر" (سورۃالزخرف،آیت31)

یہ دو شہر مکہ اور طائف تھے۔ ایک اور جگہ بھی قرآن میں بھی الولید کا ذکر ہے جس کا لقب الوحید تھا۔

"اسے مجھ پر چھوڑ جسے میں نے وحید پیدا کیا۔ اور اسے وسیع مال دیا۔ اور بیٹے دیئے سامنے حاضر رہتے۔اور میں نے اس کے لئے طرح طرح کی تیاریاں کیں۔پھر یہ طمع کرتا ہے کہ میں اور زیادہ دوں۔ ہرگز نہیں وہ تو میری آیتوں سے عناد رکھتا ہے۔قریب ہے کہ میں اسے آگ کے پہاڑ صعود پر چڑھاؤں۔بے شک وہ سوچا اور دل میں کچھ بات ٹھہرائی۔تو اس پر ہلاکت ہو کیسی ٹھہرائی۔ پھر اس پر ہلاکت ہو کیسی ٹھہرائی۔پھر نظر اٹھا کر دیکھا۔پھر تیوری چڑھائی اور منہ بگاڑا۔ پھر پیٹھ پھیری اور تکبر کیا۔پھر بولا یہ تو وہی جادو ہے اگلوں سے سیکھا۔یہ نہیں مگر آدمی کا کلام۔کوئی دم جاتا ہے کہ میں اسے دوزخ میں دھنساتا ہوں۔"  سورۃ المدثر، آیات 11 سے 26
اسلام کے دشمنوں میں سب سے خونخوار اور کینہ پرور ابوالحکم تھاجو خالد کا رشتہ دار اور دوست تھا۔ اسکی اسلام دشمنی کی بناء پر اسے مسلمانوں نے ابوجہل (یعنی جہالت کا باپ)کا لقب دیااور بعد میں وہ اسی نام سے جانا گیا۔وہ ایک چھوٹے قدوقامت اور دبلے پتلے لیکن مضبوط جسم کا مالک تھا۔ تاریخی حوالوں میں اسے آہنی چہرے والا، آہنی نظر والا اور آہنی زبان والا جیسے الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے۔ ابو جہل یہ بات کبھی نہ بھول سکا تھا کہ لڑکپن میں محمدؐ نے اسے کشتی کے ایک مقابلے میں بری طرح زمین پر پٹخ دیا تھا جس سےاسکے گھٹنے پر کاری زخم آیا تھا جسکا نشان مرتے دم تک اسکے جسم پررہا۔
قریش کے یہ با اثر افراد جب رسولؐ کو دھمکانے اور لالچ دینے کے باوجود باز رکھنے میں ناکام ہو گئے توبنو ہاشم کے بوڑھے اور قابل احترام سردار ابو طالب کے ہاں جا پہنچے۔ وہ رسولؐ کو قتل کرنے کرنا چاہتے تھے لیکن قبائل میں موجود خاندانی عصبیت اور اتفاق انکےآڑے آتاتھا۔ محمدؐ کے قتل کے بعد بنو ہاشم سے انکی خاندانی دشمنی کا آغاز ہو جاتا اوربنو ہاشم ضرور اسکا بدلہ لیتے۔

قریش کا وفد ابوطالب سے مخاطب ہوا،"اے ابوطالب! تم ہمارے سردار ہو اور ہم میں سب سے زیادہ معزز ہو۔تم نے دیکھ لیا ہے کہ تمھارے بھائی کا بیٹا ہمارے مذہب کے ساتھ کیا کر رہا ہے۔ وہ ہمارے خداؤں کی توہین کرتا ہےاور ہمارے آبائی عقائد کی تحقیر کرتا ہے۔ تمھارا بھی وہی عقیدہ ہے جو ہمارا ہے۔ محمد ؐ کو اپنی سرگرمیوں سے روک لو یا ہمیں اجازت دو کہ ہم خود اس سے نبٹ لیں۔"

ابوطالب نے ان کی اچھی طرح تواضع کی اور انہیں یقین دلایا کہ وہ اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرےگا۔ ابوطالب نے رسولؐ تک قریش کا پیغام پہنچایا لیکن آپ کو دین حق کی دعوت سے باز نہ رکھ سکا۔ ابوطالب ایک شاعر اور نرم دل انسان تھا۔ جب بھی اسطرح کا کوئی مسئلہ پیش آتا وہ ایک لمبی غزل لکھتا جس میں اپنی تمام پریشانیوں کا ذکر کرتا۔
الولید کے گھر میں رسولؐ کی سرگرمیاں گفتگو کا موضوع رہنے لگیں۔ وہ شام کو اپنے بیٹوں اور رشتہ داروں کے ہمراہ بیٹھتا اور ان تمام کوششوں کا احوال بیان کرتا جو قریش رسولؐ کی تحریک کو روکنے کے لئے کر رہے تھے۔خالد اور اسکے بھائیوں تک بھی قریش کے ابوطالب کے پاس جانے والے وفد کی خبر پہنچی۔ کچھ عرصے بعد دوسرا وفد بھیجا گیا جس کے وہی نتائج نکلے جو پہلے وفد کے تھے۔رسولؐ نے اپنی تحریک جاری رکھی۔

پھر الولید نے ایک مشکل فیصلہ کیا۔ اسنے اپنے بیٹے عمرہ کو محمدؐ کے بدلے بنو ہاشم کے سامنے پیش کیا۔عمرہ ایک کڑیل اور توانا نوجوان تھا جسے سب قبیلے والے رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔قریش کا وفد عمرہ کو لے کر ابوطالب کے پاس پہنچا۔ وفد مخاطب ہوا،"اےابوطالب! ہم عمرہ بن الولید کو لے کرتمھارے پاس آئے ہیں۔ یہ قریش کا بہترین نوجوان ہے، یہ قبیلے کے نوجوانوں میں سب سے پسندیدہ اور سب سے معزز ہے۔اسے اپنے بیٹا بنا لو۔ ہم اسے ہمیشہ کے لئے تمھارے حوالے کرتے ہیں۔ بدلے میں تم ہمیں اپنے بھائی کا بیٹا دے دو جو تمھارے اور ہمارےمذہب کے خلاف کام کر رہا ہےاور جو ہمارےقبیلے میں رنجشیں پیدا کر رہا ہے۔ہم اسے ختم کر دیں گے۔ کیا یہ ٹھیک نہیں ہے کہ ایک آدمی کو آدمی سے بدل دیا جائے؟

ابوطالب یہ سن کر سخت ناراض ہوا۔ اسنے جواب دیا۔"میرے خیال میں تو یہ سراسر ناانصافی ہے کہ تم اپنا بیٹا کھلانے پلانے اور بڑا کرنے کے لئے مجھے دے دو اور میرے بیٹے کو ماردو۔خدا کی قسم میں ایسا نہیں ہونے دوں گا"۔ منصوبہ ناکام ہو چکا تھا۔
جب قریش کو کوئی امید نہ رہی کہ وہ خود یا ابوطالب کے ذریعے سے رسولؐ کو روک سکیں تو انہوں نے آپؐ اور آپؐ کے پیروکاروں کی زندگی اجیرن بنانے کا فیصلہ کر لیا تاکہ وہ مجبور ہو کر باز آجائیں۔انہوں نے مکہ کے آوارہ لڑکوں کو آپؐ کے پیچھے لگا دیا۔ رسولؐ جہاں بھی جاتے یہ بدمعاش آپ پر آوازیں کستے اور خاک پھینکتے۔کبھی آپؐ کی راہ میں کانٹے بچھاتے اور کبھی آپؐ کے گھر میں گند پھینک دیتے۔یہ سب ابوجہل اور ابو لہب کہنے پر ہو رہاتھا۔

جوں جوں مسلمانوں کی تکلیفوں میں اضافہ ہوا، اسکی نئی نئی شکلیں بھی سامنے آنے لگیں۔نت نئی ترکیبیں سوچی جانے لگیں ۔ ایک شخص کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ رسولؐ کو کشتی کے مقابلےکے لئے للکارا جائے۔یہ شخص رسولؐ کا چچا تھا لیکن اسلام دشمن تھا۔ رکنہ ابن عبدیزید نامی یہ آدمی مشہور پہلوان تھا اور اپنی طاقت اور مہارت پر بہت غرور کرتا تھا۔اسے کبھی مکہ میں کسی نے مات نہیں دی تھی۔ اسنے بڑھک ماری،"اے میرے بھائی کے بیٹے! میں سمجھتا ہوں کہ تم بھی ایک مرد ہو اور جھوٹے نہیں ہو۔ آؤ اور میرے ساتھ کشتی لڑو۔ اگر تم نے مجھے گرا دیا تو میں تمھیں خدا کا نبی مان لوں گا۔" یہ آدمی دل ہی دل میں اپنے آپ کو داد دے رہا تھا کہ کیا طریقہ استعمال کیا ہے رسولؐ کی تضحیک کا۔

یا تو رسولؐ مقابلہ کی دعوت رد کر دیں گے اور ان کی قدر مکہ والوں کی نظر میں گھٹ جائے گی اور یا پھردعوت قبول کر لیں گے اور مقا بلے میں تکلیف اٹھائیں گے۔ لیکن یہ اسکی بھول ثابت ہوئی۔ آپؐ نے مقابلے کی دعوت قبول کی اور مقابلے کے دوران تین دفعہ اسے زمین پر پٹخا۔ بعد میں وہ چھچھورا شخص اپنی بات سے پھر گیا۔
رسولؐ بذات خود جسمانی ایذا سے محفوظ تھے جسکی وجہ انکے قبیلے کی حمایت تھی لیکن کچھ دوسرے مسلمان ایسے تھے جو غیر محفوظ تھے۔ وہ نہ تو کسی بااثر خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور نہ ہی خود اتنے طاقتور تھے کہ اپنا دفاع کر سکیں۔ ان میں غلام اور باندیاں بھی شامل تھے۔ ان میں سے اکثر کو قریش کے ہاتھوں تشدد اور اذیت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ بلال بن حمامہ جو ایک دراز قامت اور دبلا پتلاحبشی غلام تھا انہی میں سے ایک تھا۔اسے اسکا مالک امیہ بن خلف بری طرح اذیت پہنچاتاتھا۔گرمیوں کی تپتی دوپہر میں جب سورج آگ برسا رہا ہوتا، بلالؓ کو ریت پر لٹا دیا جاتا اور انکے سینے پر ایک بڑا پتھر رکھ کر انہیں سورج کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا۔انکا مالک کچھ دیر بعد آتا اور بلالؓ کے تکلیف سے بگڑے ہوئے چہرے کی طرف دیکھ کر کہتا،"محمد کی پیروی کرنا چھوڑ دو اور لات اور عزیٰ کی عبادت کی طرف لوٹ آؤ"۔لیکن بلالؓ کے عزم میں کمی نہ آئی۔ امیہ بن خلف کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ جلد ہی وہ اور اسکا بیٹا بدر کےمیدان میں بلالؓ کے سامنے ہونگے اور انہی کے ہاتھوں انکا خاتمہ ہونا ہے۔

Read more...

باب نمبر ایک : لڑکپن

باب نمبر ایک : لڑکپن

خالد اور دراز قد لڑکے کی نظریں ایک دوسرے پر جمی ہوئی تھیں ۔ آہستہ آہستہ انہوں نے ایک دائرے میں حرکت شروع کی ۔ وہ بدستور ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے اور اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے تھے کی مخالف کو کیسے زیر کیا جائے اور اسکے داؤ سے کیسے بچا جائے ۔ ان کی آنکھوں میں کوئی دشمنی نہیں تھی ، بس ایک انہماک تھا اور جیت کا جزبہ ۔ خالد محتاط تھا کیونکہ اسکا مخالف بائیں ہاتھ والاتھا اور وہ جانتا تھا کہ بائیں ہاتھ والوں کو مقابلے میں اپنے مخالفین پر ایک قدرتی سبقت حاصل ہوتی ہے ۔
کشتی عرب کے نوجوانوں کا ایک محبوب مشغلہ تھا اور وہ اکثر ایک دوسرے سے لڑا کرتے تھے ۔ ان مقابلوں میں کوئی بغض کا عنصر نہیں تھا ۔ یہ ایک کھیل تھا اور کشتی کی تربیت کو عرب میں مردانگی کا حصہ سمجھا جاتا تھا ۔مگر یہ دونوں لڑکے اپنے ہم عمر لڑکوں میں سب سے طاقتور اور نمایاں تھے اور اس مقابلے کی مثال ہیوی ویٹ ٹائٹل کی سی تھی ۔ دونوں ہم عمر تھے اور انکی عمر دس سے پندرہ برس کے درمیان تھی ۔ انکے پسینے سے شرابور جسم سورج کی روشنی میں چمک رہے تھے ۔ درازقد لڑکا خالد سے شاید ایک انچ لمبا تھا اورانکے چہرے اسقدر مشابہ تھے کہ بعض اوقات پہچاننے میں مشکل ہوتی ۔

کچھ دیر کے مقابلے کے بعد خالد نے درازقد لڑکے کو زمین پر پٹخ دیا ۔ گرتے وقت درازقد لڑکے کی ٹانگ کے چٹخنے کی آواز آئی اوراگلے لمحے وہ زمین پر ساکت پڑا ہوا تھا ۔ اسکی ٹوٹی ہوئی ٹانگ بری طرح مڑی ہوئی تھی اور خالد اپنے اس دوست اور بھانجے کی طرف پریشانی کے عالم میں دیکھ رہا تھا ۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زخم مندمل ہوگیا اور درازقد لڑکے کی ٹانگ دوبارہ صحتمند اور مضبوط ہو گئی ۔ اس نے اس واقعہ کے بعد بھی کشتی میں حصہ لیا اور اپنی طاقت اور مہارت کا لوہا منوایا ۔ دونوں کے درمیان اچھی دوستی تھی ۔ وہ دونوں ذہین ، طاقتور اور جارح مزاج ضرور تھے لیکن ان کی شخصیت میں صبر اور چالاکی کی کمی تھی ۔ وہ جو بھی کرتے، آپس میں ایک رقابت کی فضا قائم رکھتے ۔

یہاں اس درازقد لڑکے کے بارے میں جاننا ضروری ہے کیونکہ اسنے خالد کی زندگی میں ایک اہم کردار ادا کرنا تھا ۔ یہ عمر تھا ، خطاب کا بیٹا ۔

خالد کی ولادت کے بعد اسکو جلد ہی اپنی ماں سے الگ کر کے قریش کے رواج کے مطابق صحرا کے ایک بدو قبیلے میں بھیج دیا گیا اور اسکے لئے ایک رضاعی ماں کا انتخاب کیا گیا جس کا کام اسکی پرورش کرنا تھا ۔ صحرا کی خشک اور شفاف فضا خالد کی پرشکوہ صحت اور زبردست طاقت کی بنیاد بنی جس سے وہ ساری زندگی لطف اندوز ہوا ۔ صحرا خالد کو بہت راس آیا اوریہاں خالد کو ایک عجیب فرحت کا احساس ہوتا ۔ خالد نے اپنے بچپن کا ابتدائی حصہ صحرا کے عربوں میں گزارا اور پانچ یا چھ سال کی عمر میں وہ واپس مکہ اپنے ماں باپ کے پاس لوٹ آیا ۔ 

بچپن میں اسکو چیچک کی بیماری کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن اس سے اسکو کوئی خاص فرق نہیں پڑا سوائے اسکے کہ اس کےچہرے پر ہلکے ہلکے داغ رہ گئے۔لیکن یہ داغ اسکی مردانہ وجاہت اورشخصیت پر کوئی فرق نہیں ڈالتے تھے ۔
بچپن لڑکپن میں تبدیل ہوا اور اس بات کا ادراک کر کے اس کو ایک فخر کا احساس ہوا کہ وہ ایک سردار کا بیٹا ہے ۔ اس کا باپ الولید قریش کے ایک انتہائی معزز قبیلے بنی مخذوم کا سردار تھا اور مکہ میں الوحید کے نام سے بھی جانا جاتا تھا ۔ خالد کی پرورش کی ذمہ داری اب اسکے والد نے اٹھائی اور بہت احسن طریقے سے نبھائی جسکے نتیجے میں خالد کی شخصیت ہمت، طاقت، سخاوت اور جرات کا مجموعہ بنی ۔الولید اپنےآباءواجداد اور شجرہ نسب پر بہت فخر کرتا اور خالد کو بتاتا کہ وہ خالد بن الولید بن المغیرہ بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم بن یقزہ بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فھر بن مالک بن النضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان بن اد بن مقوم بن ناحور بن تيرح بن يعرب بن یشجب بن نابت بن اسماعیل بن ابراھیم بن آزر بن ناحور بن ساروغ بن ارغو بن قانغ بن عابر بن شالخ بن ارفخشز بن سام بن نوح بن لمک بن متوشلخ بن اخنوخ بن یارد بن مھلاییل بن قنانن بن انوش بن شیث بن آدم ہے ۔
قریش مکہ کا بہت بڑا قبیلہ تھا جو اپنی اہمیت اور ذمہ داریوں کے لحاظ سے تین شاخوں میں تقسیم ہوتا تھا ۔ بنوہاشم، بنومخذوم اور بنو امیہ ۔ جنگی امور پر نظر رکھنا بنو مخذوم کی ذمہ داری تھی ۔ اسکا کام قریش کے جنگی گھوڑوں کی دیکھ بھال اور تربیت کرنا ، مہمات کی تیاری کرنا اور میدان جنگ کے لئے اچھے جنگجو فراہم کرنا تھا ۔ بنو مخذوم کے اس کردار نے وہ ماحول فراہم کیاجس میں خالد کی تربیت ہونا تھی ۔ 

اسے بچپن میں ہی گھڑسواری کی تربیت دی گئی ۔مخذومی قبیلے کا فرد ہونے کے ناطے اسے گھڑسواری کے فن میں مہارت حاصل کرنا تھی اور جلد ہی اسنے اپنی صلاحیت کا لوہا منوا یا ۔لیکن صرف سدھائے گئے اور تربیت یافتہ گھوٖڑوں کو قابو کرنا کافی نہ تھا ۔ اسے غیر تربیت یافتہ اور منہ زور بچھیرے دئیے جاتے اور وہ ان کی تربیت کرکے بہترین جنگی گھوڑے بناتا ۔ بنو مخذوم عرب کے بہترین گھڑسوار تھے اور خالد بنو مخذوم کے بہترین گھڑسواروں میں سے ایک تھا۔عرب کے گھڑسوار اونٹ کے بھی بہترین سوار ہوا کرتے تھے کیونکہ اونٹ دور دراز کی مہمات کے لئے لازمی سمجھے جاتے تھے ۔
گھڑسواری کے ساتھ خالد نے جنگی فنون میں بھی مہارت حاصل کی ۔ یوں تو اسنے پیادہ اور سوار ہر قسم کی لڑائی کی تربیت حاصل کی اورتلوار، تیرکمان اور نیزے سمیت ہر قسم کا ہتھیار استعمال کرنا سیکھا لیکن گھوڑے کی پشت پر بیٹھ کر نیزے کے استعمال اور شمشیرزنی میں اس کا کوئی ثانی نہ تھا ۔تلوار عربوں میں دلیری کی علامت سمجھی جاتی تھی کیونکہ تلوار کا مقابلہ انسان کو اپنے دشمن کے انتہائی قریب لے جاتا ہے جہاں اسکی صلاحیت کا کٹھن امتحان ہوتا ہے ۔ خالد کی تلوار اسکا سب سے قابل اعتماد ہتھیار تھا ۔ 

خالد لڑکپن سے جوانی کی عمر کو پہنچا ۔ بلند قدوقامت، چوڑے سینے ، مضبوط اور قوی جسم، گھنی داڑھی اور متاثرکن شخصیت کا مالک ہونے کی وجہ سے خالد جلد ہی مکہ میں مقبول ہو گیا ۔اسکی وجہ شہرت اپنے پسندیدہ کھیل کشتی کی وجہ سے تھی جہاں اسنے اپنی بہترین مہارت اور طاقت سے کامیابیوں کے جھنڈے گاڑھے ۔

عربوں کے خاندان عام طور پر کثیر افراد پر مشتمل ہوا کرتے تھے جہاں مرد اپنی نسل کی وسعت اور تسلسل کے لئے کئی شادیاں کرتے تھے ۔ الولیدکے اپنے بھائیوں کی تعداد غالباً پانچ تھی ۔ اسکے بچوں کی تعداد میسر تاریخی حوالوں کے مطابق سات تھی ۔ خالد، ولید، ہشام، عمرہ، ابو شمس اور انکی دو بہنیں جن کا نام فکتہ اور فاطمہ تھا ۔
الولید ایک مالدار آدمی تھا جسکی وجہ سے خالد نے روزگار کی فکر میں پڑے بغیر اپنا سارا وقت اپنی حربی صلاحیتوں کو نکھانے میں صرف کیا ۔ ایک مالدار گھرانے کا فرد ہونے کی وجہ سے خالد معاشی معاملات میں بے نیازی کا مظاہرہ کرتا اور ضرورت مند لوگوں کی کھل کر مدد کرتا ۔ اسکی یہ فراخدلی ایک دن اسکے لئے مصیبت کا باعث بھی بننے والی تھی ۔

گو کہ الولید ایک مالدار آدمی تھا لیکن قریش مکہ جمہوری مزاج کے لوگ تھے اور قبیلے کا ہر آدمی کام کرتا تھا ۔مالدار لوگ اس لئے کام کرتے کہ معاشرے کا ایک مفید حصہ بن سکیں ۔ الولید جسکے اپنے ہاں کئی ملازم تھے بطور لوہار کام کرتا اور فارغ وقت میں بطور قصاب قبیلے کے جانور ذبح کرتا ۔وہ ایک تاجر بھی تھا اور قبیلے کی دوسری برادریوں کے ہمراہ تجارتی قافلوں کا اہتمام کرتا ۔ ایک سے زائدمواقع پر خالد بھی ان قافلوں کے ہمراہ شام کے سفر پر گیا جہاں اسے غسان کے عربوں، تیسفون کے فارسیوں ، مصر کے قبطیوں اور بازنطینی سلطنت کے رومیوں سے ملنے کا موقع ملا۔
خالد کے کئی دوست یا ر تھے جن کے ہمراہ وہ گھڑسواری اور شکار پر جاتا ۔ بیرونی مصروفیات سے فارغ ہو کروہ محفل سجاتے جہاں شعروشاعری اور شاہانہ ضیافت کا اہتمام کیا جاتا اور اپنے شجرہ نسب کو اپنے حافظے میں تازہ کیا جاتا ۔جن دوستوں نے اس کی زندگی میں بہت اہم کردار ادا کیاان میں عمربن الخطاب، عمرو بن العاص، اور ابوالحکم قابل ذکر ہیں ۔ ابوالحکم جس کا نام عمرو بن حشام تھا بعد میں ابو جہل کے نام سے بھی مشہور ہوا ۔ اسکا بیٹا عکرمہ خالد کا سب سے عزیز بھتیجا اور دلی دوست تھا ۔

الولید نہ صرف اپنے بیٹوں کا باپ تھا بلکہ وہ ان کا استاد اور اتالیق بھی تھا جس سے انہوں نے جنگی فنون کی تربیت حاصل کی۔صحرا میں کیسے حرکت کرنی ہے، دشمن کے پڑاؤ کی طرف کیسے بڑھنا ہےاور کیسے اس پر حملہ آور ہونا ہے یہ سب اسباق اس تربیت کا حصہ تھے جس میں خالد بر سوں تک رہا ۔ اسے اندازہ ہوا کہ دشمن کو بے خبری میں قابوکرنا، غیر متوقع وقت اور مقام پر حملہ آور ہونا،دشمن کا پیچھا کرنا اور اسے سنبھلنے سے پہلے تہس نہس کر دینا کس قدر اہمیت کا حامل ہے ۔ اگرچہ یہ سب حربے قبائلی جھڑپوں میں استعمال ہوتے تھے لیکن برق رفتاری، حیرت کا عنصراور حرکت پزیری جیسی خصوصیات کسی بھی جنگ میں جیت کی ضمانت ہو سکتی تھیں۔

بلوغت کو پہنچنے کے بعد جنگی فنون سے خالد کو خصوصی دلچسپی رہی ۔ اسکا شوق اپنی انتہا کو پہنچا اور کامیابی اور مہم جوئی کے خیالات اسکے خوا ب و خیال پر حاوی رہے ۔اسنے جنگی میدان میں عظیم کامیابیوں کو اپنا حدف بنایا۔ مشیت ایزدی نے بھی الولید کے بیٹے خالد کا نام رہتی دنیا تک امر کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا ۔

Read more...

  © Blogger template Shush by Ourblogtemplates.com 2009

Back to TOP