باب نمبر چونتیس
باب نمبر ۳۴ : معرکہ یرموک کی تیاری
شام ایک ایسے میدان جنگ کی صورت اختیار کر چکا تھا جس میں متحارب قوتیں مخالف سمت سے داخل ہوئی تھیں ۔ دونوں داخلوں کی پشت کا علاقہ ایسا تھا جو اس سمت سے داخل ہونے والے فریق کے لئے گھر کی مانند تھا ۔ شام اور فلسطین کے مغرب میں وسیع و عریض بحیرہ روم تھا جو اس دور میں "رومی جھیل" بھی کہلاتا تھا ۔ جبکہ مشرق اور جنوب میں صحرا تھا جسکی وسعتوں میں عرب بےتاج بادشاہ تھے ۔ رومی سمندر میں اپنے بحری بیڑوں کے ساتھ آزادی سے گھوما کرتے جبکہ عرب ریگستان میں اپنے اونٹوں کے کاروان کے ساتھ اسی آزادی کے ساتھ حرکت کیا کرتے ۔ عرب سمندر میں جانے کی جرات نہیں کر سکتے تھے اور نہ ہی رومی ریت کے سمندر میں کسی مہم جوئی کی سکت رکھتے تھے ۔ جبکہ درمیان کے میدان میں دونوں فریق اپنے داو پیچ آزما سکتے تھے ۔
لھذا اس میدان مین لڑنے والی دونوں فوجوں کے لئے بہترین جگہ اس کے اپنے علاقے کی سرحد تھی جہاں وہ اپنے وسیع و عریض "سمندر" کو اپنی پشت پر رکھ کر لڑ سکتی تھی اور نہ صرف شکست کی صورت میں پسپائی اختیار کر کے خود کو محفوظ بنا سکتی تھی بلکہ فتح کی صورت میں مخالف کا پیچھا کر کے اس کو زبردست نقصان پہنچا سکتی تھی ۔ لیکن اس صورتحال کا فائدہ مسلمانوں کو رومیوں سے زیادہ تھا کیونکہ اس محاذ سے پسپائی ان کے لئے کسی نقصان یا شرمندگی کا باعث نہیں بن سکتی تھی ۔ رومیوں کے لئے البتہ اس کا دفاع اشد ضروری تھا کیونکہ یہ ان کی سرزمین تھی اور اسکا دفاع انکوہر صورت میں کرنا تھا ۔ یہ فائدہ جو مسلمانوں کو ایک بہتر پوزیشن میں ہونے کی وجہ سے تھا اچھی طرح سے ہرقل کے ذہن میں تھا اور اس جنگ کی سب سےبڑی مہم کی منصوبہ بندی میں اسنے خاص طور پر اس بات کو مد نظررکھا تھا ۔
ہرقل نے ۶۱۰ عیسوی میں اسوقت تخت سنبھالا تھا جب مشرقی سلطنت روما کے معاملات انتہائی تنزلی کا شکار تھے اور سلطنت قسطنطنیہ، یونان اور افریقہ کے کچھ علاقوں پر مشتمل تھی ۔ابتدا میں اس کو چند کڑوی گولیاں نگلنی پڑیں لیکن پھر تقدیر نے یاوری کی اور دو عشروں کے اندر اس نے سلطنت کو اپنی پرانی عظیم الشان حالت میں بحال کر دیا ۔ پہلے اسنے شمال کے وحشیوں کو شکست دی، پھر ترکوں کو زیر کیا اور اسکے بعد خسرو کی انتہائی مہذب ایرانی سلطنت کو پسپا کیا ۔ یہ سب اسنے نا صرف اپنی سخت جنگی قوت سے کیا تھا بلکہ اسمیں اعلی معیار کی منصوبہ بندی اور عمدہ نظم و ضبط بھی کارفرما تھا۔ حربی صلاحیتیں ہرقل کے رگ و پے میں بسی ہوئی تھیں اور یہ اسکی غیر معمولی انتظامی صلاحیت تھی جسکی بناء پر رومی اس قابل ہوئے تھے کہ وہ نا صرف ایک بڑی فوج تشکیل دے سکیں بلکہ ایک درجن سے زائد اقوام پر مشتمل اس عظیم سامراجی فوج کو میدان میں منظم کر سکیں ۔
ہرقل کو ایک بار پھر کڑوی گولیاں نگلنا پڑیں اور زیادہ تلخی اس حقیقت میں تھی کہ ان کو ایک ایسی قوم نے ناکوں چنے چبوا دیئے تھے جس کو وہ انتہائی حقارت سے دیکھتے تھے اور انکو پسماندہ اور کمتر سمجھ کر انکی طرف سے آنے والے کسی خطرے کے امکان کو مسترد کر چکے تھے ۔ بے عیب جنگی حکمت عملی کے باوجود انکو مسلمانوں کے خلاف شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا ۔ رومی فوج کا اجنادین کے مقام پر پہلا اجتماع جس نے مسلمانوں کے عقب سے حملہ آور ہونا تھا اجنادین کے معرکے میں خالد بن ولید کے ہاتھوں بری طرح تباہ ہوا تھا ۔ ہرقل چاہتا تھا کہ دمشق کا مضبوط دفاع کر کے مسلمانوں کی کامیابی کو محدود کیا جائے لیکن محصور شدہ چھاونی کو بچانے کی ہر کوشش بے نتیجہ ثابت ہوئی تھی ۔ اسکا اگلا جارحانہ اقدام بھی ناکام ہو گیا تھا جسکے مطابق رومی فوج نے بیسان کے مقام پر جمع ہو کر مسلمانوں کے عقب سے حملہ آور ہونا تھا ۔ اس فوج کو شرحبیل نے بری طرح تتر بتر کر دیا تھا ۔لھذا نہ صرف اسکی دمشق کو واپس حاصل کرنے کی کوشش ناکام ہوئی تھی بلکہ اسکے علاوہ بھی اسکا دفاع متعدد جگہ پر ریت کی دیوار ثابت ہوا تھا ۔ جبکہ دوسری طرف مسلمانوں کے لشکر ایک کے بعد دوسری فتح حاصل کرتے ہوئے فلسطین اور حمس تک کے تمام علاقے فتح کر چکے تھے ۔
ہرقل نے بھرپور مزاحمت کا فیصلہ کر لیا تھا ۔ وہ ایک ایسی فوج تیار کرنا چاہتا تھا جو اس سے پہلے شام کی تاریخ میں کبھی میدان پر نہ اتاری گئی ہو اوراس فوج کے ذریعے وہ مسلمانوں کو اسطرح بےبس کرنا چاہتا تھا کہ کوئی مسلمان اس کی گرفت سے بچ نہ سکے ۔ وہ اپنی شکست کو ایک عظیم الشان فتح میں بدلنا چاہتا تھا ۔
۶۳۵ عیسوی کے اواخر میں جب حمس کا محاصرہ جاری تھا، ہرقل نے انتہائی قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا ۔ سلطنت کے ہر کونے سے فوجیں جمع کی گئیں جس میں سلطنت کے شہزادے اور کلیسا کے معززین بھی شامل تھے ۔ مئی ۶۳۶عیسوی کے آخر تک ڈیڈھ لاکھ کی فوج کو کیل کانٹے سے لیس کر کے شام کے شمالی حصوں اور انتاکیہ میں جمع کیا جا چکا تھا ۔ یہ لشکر جرار روسی، سلاو، فرانسیسی، اطالوی، یونانی، جارجین، آرمینین اور عیسائی عرب اقوام پر مشتمل تھا ۔ عیسائی عقیدے پر ایمان رکھنے والی کوئی قوم اس نئی فوج کو جنگجو بھیجنے سے پیچھے نہیں رہی تھی جو حملہ آور کے خلاف صلیبی جنگ کے جزبے سے سرشار تھی ۔اس فوج کو ۳۰ ہزار کے پانچ حصوں میں منظم کیا گیا ۔ ان دستوں کے سربراہان آرمینوی بادشاہ وہان، روسی شہزادہ قناطیر، دیرجان، گریگوری اور عربی عیسائیوں کا بادشاہ جبلہ ابن الایہم تھے۔ وہان کی کمان میں خالصتا آرمینوی فوج تھی، جبلہ عرب عیسائیوں کا سربراہ تھا اور قناطیر روسی اور سلاو افواج کا کمانڈر تھا۔ باقی تمام دستے جو یورپی تھے ، گریگوری اوردیرجان کی قیادت میں تھے ۔ وہان کو اس شاندار لشکر کا سپاہ سالار مقرر کیا گیا ۔
اسوقت مسلمان چار جگہوں پر موجود تھے ۔ عمروبن العاص فلسطین میں، شرحبیل اردن میں، یزید قیصریہ میں اور خالد بن ولید شمال کی جانب حمس کے مقام پر موجود تھا۔ مسلمان شدید خطرے کی زد میں تھے اور عین ممکن تھا کہ مسلمان کے ہر دستے کونشانہ بنا کر کامیابی کے ساتھ ختم کر دیا جاتا۔ ہرقل نے اس صورتحال کو خاص طور پر ذہن میں رکھ کر منصوبہ بندی کی تھی۔
قیصریہ کو سمندر کی جانب سےکمک فراہم کی گئی تھی اور اب وہاں ۴۰ ہزار رومی جنگجو موجود تھے۔ ان کا کام یزید اور اسکی محاصر فوج کو الجھاناتھا تاکہ وہ اپنے ساتھیوں کی مدد کو نہ پہہنچ سکیں۔ باقی فوج نے اس منصوبے پر عمل کرناتھا:
۱۔ قناطیر نے ساحلی راستے سے بیروت پہنچنا تھا اور پھرمغرب کی جانب سے پیش قدمی کرنا تھی تاکہ ابو عبیدہ کودمشق تک محدود کیا جا سکے ۔
۲۔ جبلہ نے حما کے راستے سے براہ راست حمس پر حملہ آور ہونا تھا اور مسلمانوں کو سامنے سے الجھا کر رکھنا تھا۔عرب عیسائی اس فوج کا ہراول دستہ تھے۔ ہرقل نے خاص طور پر عرب عیسائیوں کو عرب مسلمانوں کے سامنے بھیجا تھا، اس کا کہنا تھا،"لوہالوہے کو کاٹتا ہے"۔
۳۔ دیرجان نے ساحل سمندر کے ساتھ ساتھ سفر کرنا تھا اور مغرب کی جانب سے مسلمانوں کےبائیں پہلو میں اسوقت حملہ آور ہونا تھاجب وہ جبلہ کےدستے سے نبردآزما ہوں۔
۴۔ گریگوری نے حمس کی جانب شمال مشرق کی طرف سے پیش قدمی کرنی تھی اوردائیں پہلو سے مسلمانوں پر عین اس وقت حملہ کرنا تھا جب دیرجان کی فوج ان سے ٹکرا چکی ہو۔
۵۔وہان کی فوج نے عرب عیسائیوں کے پیچھے اضافی دستوں کا کام کرنا تھا تاکہ دوران جنگ ضرورت پڑنے پر تازہ دم دستے فراہم کئے جا سکیں۔
اس منصوبے کا مقصد مسلمانوں کو ہر طرف سے گھیر کر ایک ایسی فوج کے نرغے میں لاناتھا جو ان سے دس گنا بڑی ہواور اسکے بعد خالد حالات کے رحم و کرم پر ہوتا۔ اس فوج کو تباہ کر کے رومیوں نے جنوب کی طرف مسلمانوں کے دوسرے دستوں سے ٹکراناتھا اور باری باری ان کو خونریز حملوں کے نتیجہ میں مکمل طور پر ختم کرنا تھا۔
سلطنت کے طول و عرض میں رومی فوج کی کامیابی کے لئے خصوصی دعاوں کا اہتمام کیا گیا۔جرنیلوں اور پادریوں نے اپنی فوج کا حوصلہ بڑھایا اور اپنے عقیدے، اپنے وطن اور اس میں رہنے والے لوگوں کی خاطر دشمن کے خلاف ڈٹ جانے کی تاکید کی۔ اس بھرپور تیاری اور بےعیب جنگی حکمت عملی کےساتھ جون ۶۳۶ عیسوی میں سلطنت روما کے اس لشکر جرار نے شمالی علاقوں اور انتاکیہ سے پیش قدمی شروع کی۔
جبلہ کی فوج کے ہراول دستے حمس پہنچے لیکن وہاں مسلمانوں کا نام و نشان تک نہ تھا۔ قناطیر کی فوج دمشق پر مغرب سے حملہ آور ہوئی لیکن یہ دیکھ کر ان کے ارمانوں پر اوس پڑ گئی کہ وہاں ایک مسلمان بھی موجود نہیں تھا۔ پنچھی اڑ چکے تھے۔
مسلمانوں کو شیذار کے مقام پر رومی قیدیوں کے ذریعے ہرقل کی جنگی تیاریوں کے بارے میں اطلاعات مل چکی تھیں۔ مسلمانوں نے مختصر سے عرصے میں جاسوسی کا بہترین نظام وضع کیا تھا اور دشمن فوجوں کی کسی بھی بڑی پیش قدمی کی اطلاع ان کو پیشگی موصول ہو جاتی تھی۔ جوں جوں مسلمانوں کے پاس اطلاعات پہنچتی رہیں صورتحال واضح ہوتی گئی۔ ابھی رومی فوج نے پیش قدمی شروع بھی نہ کی تھی کہ مسلمانوں کواس کی سمت اور راستوں کے بارے میں اطلاع مل گئی۔ قیصریہ کو فراہم کی جانے والی کمک اور اس میں موجود فوجوں کی تعداد مسلمان پہلے ہی جان چکے تھے۔
رومی کیمپ سے ملنے والی اطلاعات سن کر مسلمان ہکا بکا رہ گئے تھے۔ہر آنے والی اطلاع مسلمانوں کی بے چینی میں اضافہ کر رہی تھی۔ ہرقل کا منصوبہ بلکل واضح تھا اور خالد جلد ہی اس نتیجہ پر پہنچ گیا کہ حمس اور شیذار میں موجود مسلمان فوجیں شدید خطرے کی زد میں ہیں۔بہترین حکمت عملی یہی تھی کہ شمالی ووسطی شام اور فلسطین کے علاقوں میں موجود تمام مسلمان فوجوں کو نکال کر صحرا کے قریب اکٹھا کیا جائے تاکہ طوفان کی طرح آگے بڑھتے رومی خطرے کے سامنے بھرپور مزاحمت کو ممکن بنایا جا سکے۔ خالد نے سپاہ سالار ابو عبیدہ ابن جراح کے سامنے اپنی تجویز رکھی جسے قبول کر لیا گیا۔ تمام فوجوں کو انخلاء کے احکامات جاری کئے گئے اور انہیں جبیہ کے مقام پر جمع ہونے کی ہدایت کی گئی۔لھذا اس سے پہلے کہ رومی دمشق پہنچتے، خالد اور ابو عبیدہ جبیہ میں تھے جبکہ شرحبیل، یزید اور عمر بن العاص جبیہ کے قریب پہنچ چکے تھے۔ مسلمان فوج کے کمانڈربروقت اور موثرفیصلوں کی بدولت اپنی فوج کو ایک یقینی تباہی سے نکال لائے تھے۔
ابو عبیدہ ابن جراح نے حمس کے رہنے والوں سے بہترین سلوک کیا جسکی وجہ سے اس عظیم جرنیل کا نام تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔حمس کی فتح کے موقع پر مسلمانوں نے مقامی آبادی سے جزیہ اکٹھا کیا جس کے بعد انکی حفاظت کی ذمہ داری مسلمانوں نے اٹھائی لیکن مسلمان اب شہر